۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
تصاویر آرشیوی/ مصاحبه خبرگزاری حوزه با آیت الله مقتدایی در اربیهشت ماه 1385

حوزہ / خواہران کے دینی مدارس کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ نے کہا: عیدِ غدیر خم سب سے بڑی اور بہترین اعیاد میں سے ہے کہ جس دن امیر المومنین علی علیہ السلام کا بطور امام انتخاب ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مرتضی مقتدائی نے عید غدیرخم کے موقع پر "ہمیشہ امیر" کے عنوان سے جشن کی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: عیدِ غدیر خُم عظیم اور بہترین دینی اعیاد میں سے ہے۔ اس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے حکم سے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور خلیفۂ الہی کے طور پر منتخب کیا۔

انہوں نے مزید کہا: دہم ہجری کو جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے ہمراہ حج سے واپس پلٹ رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حضرت جبرائیل سورہ مائدہ کی آیہ نمبر 67 "یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ" لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئے۔ یعنی "اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے رسالت کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا۔ بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا"۔

خواہران کے دینی مدارس کی پالیسی ساز کونسل کے سربراہ نے کہا: اس آیہ کریمہ کے نزول کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو رک جانے کا حکم دیا تاکہ اس مہم الہی پیغام کو ان تک پہنچایا جا سکے۔ جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے انہیں واپس پلٹنے کا حکم دیا گیا اور جو پیچھے رہ گئے تھے انہیں جلدی پہنچنے کا فرمان جاری کیا گیا۔

انہوں نے کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے پلانوں کے ممبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "خدا کی جانب سے مجھے پیغام آیا ہے کہ میں تمہارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں پس مجھے اپنی رسالت اور پیغام کو کامل کرنا چاہیے"۔

آیت اللہ مقتدائی نے کہا: یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حج کو "حجۃ الوداع" کا نام دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا: پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں تک پیغام پہنچانے سے پہلے اپنی رسالت و نبوت اور ان تک دین پہنچانے کے سلسلہ میں اپنی کوششوں پر ان کی رضامندی کا اقرار لیا اور پھر فرمایا: «ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؛ یعنی "کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ صاحب اختیار اور اولی نہیں ہوں؟"۔ سب نے کہا: قَالُوا بَلَی؛ "کیوں نہیں، اے رسول خدا، آپ ہمارے مولا و حاکم ہیں"۔ تو اس وقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میں تمہارے درمیان سے رخصت ہو جاؤں گا لیکن قرآن اور میری عترت دو قیمتی امانتیں تمہارے پاس چھوڑ کر جاؤں گا اور یہ دو امانتیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوگی یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے آ ملیں گی"۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی گفتگو کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور بلند کیا۔ وہاں پر موجود تمام لوگوں نے یہ منظر دیکھا۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نے فرمایا «مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ یعنی جس جس کا میں مولا اور حاکم ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا! ان سے محبت کر جو اس سے محبت کرے اور ان سے دشمنی کر جو اس سے دشمنی کرے"۔

آیت اللہ مقتدائی نے کہا: یہ واقعہ 18 ذی الحجہ دہم ہجری کو رونما ہوا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے واقعہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا خلیفہ اور امام منتخب کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .